the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ روتوراج گائیکواڑ چنئی سپر کنگز کے لیے اچھے کپتان ثابت ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے

جب مشرق وسطیٰ میں کرنل لارنس عربوں کے ساتھ مل کر ترکوں سے نبرد آزما تھا، تو برطانیہ، فرانس اور روس کی حکومتیں جنگ عظیم میں کامیابی یقینی دیکھ کر مشرق وسطیٰ کے حصّے بخرے کرنے کا معاہدہ تیار کرنے لگیں۔ نومبر 1915ء سے معاہدے پر بات چیت شروع ہوئی اور وہ مئی 1916ء میں پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔
تاریخ میں یہ معاہدہ ’’سائیکس پیکوٹ معاہدہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔اس معاہدے کی رو سے موجودہ عراق، کویت، اردن اور اسرائیل کے علاقے انگریزوں کے حصے میں آئے۔ لبنان، شام اور شمال مشرقی ترکی فرانسیسیوں کوملے جبکہ استنبول سمیت بقیہ سارا ترکی روسیوں کومل گیا۔
مغربی مورخین کا دعوی ہے کہ کرنل لارنس سائیکس پیکوٹ معاہدے سے بے خبر تھا۔ جب اواخر 1918ء میں مشرق وسطیٰ میں ترک فوج کو شکست ہوئی تو پھراسے معاہدے کا علم ہوا۔ اس کی بابت جان کر قدرتاً حسین بن علی کے علاوہ کرنل لارنس کو بہت صدمہ پہنچا۔
برطانوی حکمران اب ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ مشرق وسطیٰ میں طاقتور عرب خلافت کا قیام عمل میں آئے۔یوں عرب طاقت پاکر علاقے میں برطانوی تجارتی و معاشی مفادات کے لیے خطرہ بن جاتے۔ مغربی طاقتیں مشرق وسطیٰ میں چھوٹی عرب ریاستیں قائم کرنا چاہتی تھیں تاکہ عرب طاقت تقسیم ہوکر کمزور ہوجائے۔
مزید برآں برطانوی حکومت کا ایک بااثر رکن، وزیر خزانہ ڈیوڈ لائڈ جارج جو بعدازاں وزیراعظم بھی بنا، انتہا پسند عیسائی تھا۔ ان عیسائیوں کو آج کل عیسائی صیہونی (Christian Zionists) کہا جاتا ہے۔ یہ عیسائی سمجھتے ہیں کہ یہود ہی فلسطین کے اصل مالک ہیں ۔اور یہ کہ مسجد اقصیٰ کی شہادت



کے بعد جب ہیکل سلیمانی تعمیر ہوگا، تب ہی حضرت عیسیٰؑ زمین پہ نزول کریں گے۔
دسمبر 1916ء میں یہی ڈیوڈ لائیڈ جارج برطانوی وزیراعظم بن بیٹھا۔ اس نے پھر صیہونی رہنماؤں سے وعدہ کیا کہ فلسطین میں انہیں ایک علیحدہ وطن (اسرائیل) دیا جائے گا۔ نومبر 1917ء میں ہونے والا ’’اعلان بالفور‘‘ اسی وعدے کی عملی شکل ثابت ہوا۔
پہلی جنگ عظیم میں حسب توقع عثمانی ترکوں کو شکست ہوئی اور ان کی خلافت سمٹ کر ترکی تک محدود ہوگئی۔ اگر مصطفیٰ کمال پاشا کی قیادت میں ترک فوج انگریزوں اور یونانیوں کو مار نہ بھگاتی، تو آج کا ترکی شاید کہیں چھوٹا اور کٹا پھٹا ہوتا۔اُدھر یورپیوں سے دھوکا کھا کر حسین بن علی سخت غصّے میں تھا۔ برطانوی حکومت نے اپنے حقیقی منصوبے پہ عمل درآمد کرتے ہوئے اس کے بڑے بیٹے، عبداللہ کو اردن جبکہ دوسرے فرزند فیصل کو عراق کا بادشاہ بنا دیا۔لیکن بظاہر اس اقدام سے یہ دکھایا گیا کہ برطانیہ نے عربوں سے کیے گئے اپنے وعدے کا پاس رکھا۔اسے کہتے ہیں مکارانہ سیاست!
ترکوں کے خلاف بغاوت کرنے والے شریف مکہ کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ وہ 1925ء تک ہی شاہ حجاز رہ سکا کہ ابن سعود نے اس کی حکمرانی کا خاتمہ کردیا۔برطانوی اب ابن سعود کی حمایت کر رہے تھے۔
اُدھر عراق میں 1958ء میں فوج نے شہزادے فیصل کی اولاد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اب صرف اردن میں حسین بن علی کے وارث بادشاہ بنے بیٹھے ہیں۔پچھلے ایک سو برس میں یہ بنیادی تبدیلی بھی آئی کہ اب مشرق وسطی میں جاری گریٹ گیم میں سلطنت ِانگلشیہ کی جگہ ریاست ہائے متحدہ امریکا لے چکا ہے۔
بشکریہ تاج جاوید صاحب لندن

اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.